کوٹ مٹھن شریف میں ایک مجذوب تھا جو ہر کسی سے یہی سوال پوچھتا رہتا کہ
"
عید کداں عید" عید کب ہو گی عید
بعض لوگ اس مجذوب کی بات
اَن سُنی کر دیتے اور کچھ لوگ سُن کر تمسخر اُڑاتے گُزر جاتے
ایک مرتبہ حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کا اس جگہ سے گزر ہوا تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا
عید کداں عید ( عید کب ہو
گی عید )
حضرت خواجہ غلام فرید صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور
جواب دیا
یار ملے جداں ( جب محبوب ملے وہ عید کا دن ہو گا۔ )
یہ الفاظ سُنتے ہی مجذوب کی آنکھُوں سے آنسُوں جاری ہو گئے وہ مزید ترستی آنکھوں سے روتے ہوئے کہا
"
محبوب کب ملے گا "
ملے یارکداں
خواجہ فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
میں مرِے جداں " میں" جب مرے گی۔
بس یہ فرمانا تھا کہ مجذوب نے کپکپاتے ہوۓ عرض کیا حضور
مرےِ میں کداں " ( کب مرے گی میں ۔ خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ)
مسکراتے ہوئے اُسے پیار سے
تھپکی دی اور یہ کہتے ہوئے چل
دیے
"تکے یار جداں " (جب دیکھے گا محبوب)
واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں
"
محبوب کا دیدار عاشق کی عید ہے اور دنیا میں یہ
دیدار اُسے دو مرتبہ ملتا ہے پہلی مرتبہ جب اُس کی "
میں " مرتی ہے اور دوسری بار جب وہ خود مرتا ہے اسی لیے اللہ کے ولیوں کی
برسی نہیں " عرس" منایا جاتا ہے یعنی خوشی کا دن کیونکہ ان کی موت محبوب
سے ملاقات ہوتی ہے۔.
0 تبصرے