اپنی ذات کی نفی
جمال حُسن یارکو دیکھنے کے لئے عاشق درمعشوق پر پہنچا اور
اور دوست کے دروازے پر دستک دی ۔۔۔ اندر سے
جان جانان نے پوچھا کون ہے؟۔۔۔ باچشم گریاں و سینہ بُریاں عاشق نے جواب دیا
"میں" ہوں ۔دیدار کی حاجت ہے۔۔۔ اندر سے جواب آیا ۔
گفت من گفتش برو هنگام نیست ،
بر چنین خوانی مقام
خام نیست
محبوب نے کہا: اے شخص چلا جا ابھی ملاقات کا وقت نہیں ہوا کچی چیز کا دسترخوان پر
کیا کام؟ میرے دوستوں میں "
میں: نامی کوئی شخص نہیں ہے تجھ سے ابھی غرور کی بو
آتی ہے تو ابھی عشق میں پختہ نہیں ہوا۔ چون کہ ابھی تک
تیری "میں تجھ سے نہیں گئی ۔۔۔تجھے مزید ہجر کی تیز آگ میں جلنا چاہیے۔ ہجروفراق کی آگ
میں جلے بغیر خام
شے بھلا کیسے پختہ ہو سکتی ہے ۔۔۔ عاشق بے چارہ اپنا سا منہ لے کر واپس چلا گیا اور ایک سال تک چنگاریوں
پر جلتا رہا۔ حیران و
سرگردان محبوب کی جدائی کا صدمہ سہتا رہا۔۔۔یہاں تک کہ ہجر کی آگ نے اسے پختہ
کردیا۔
پھر در محبوب پر حاضر ی دی نہایت خوف اور ادب سے دروازے پر دستک دی تاکہ کوئی بے ادبی سرزد نہ ہوجائے
گھر سے
آواز آئی کس کی صدا ہے؟ عاشق نے نہایت ادب
کے ساتھ جواب دیا اے میری جان دروازے پر بھی
توہی ہے۔ محبوب یہ سن کر بہت خوش ہو اور کہنے لگا اب تجھ سے "میں" دور ہوگئی ہے اب تو اندر چلا آ جب
ہم ایک ہو
گئے ہیں تو پھر دوری کیسی پہلے تو مدعی انانیت تھا اس لئے ہم نے تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
نیست سوزن را سر رشتهٔ دوتا
چونک یکتایی درین سوزن در آ
سوئی میں دو دھاگے نہیں ہوتے۔ یعنی ایک سوئی اور دودھاگے یہ کیا جب تو ایک بن گیا ہے ۔۔۔ سوئی میں آجا
یہاں
دو"میں" نہیں سما سکتے اب ہم دونوں ایک
ہوگئے ہیں لہذا اب جدائی کی گھڑیاں ختم ہوگئیں۔مولانا روم کی اس
حکایت کا درس حیات یہ کہ اپنی ذات کی نفی کئے بغیر منزل پا نا ممکن نہیں " میں " کہنے میں نامرادی ہے
"میں" کو مارے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی دانہ مٹی میں مل کر گلزار ہوتا ہے۔
0 تبصرے