تحریر خالدہ فراز۔۔۔
مذہب اور سائنس کی بحث پرانے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ان کی آپس
میں بحث کسی تکنیکی معاملے
کے بارے میں نہیں بلکہ
علوم کے دو مراکز کے بارے میں ہے،یعنی سائنس اور مذہب ، ان دونوں کے
درمیا ن جو ٹکراو نظر اتا ہے وہ اصل میں علم کا نظریہ ہے اور دونوں کا یہ دعویٰ ہے کے انسان کے زندگی پر
ان کا اثر زیادہ ہے۔
اگر ہم علماء کی بات کریں
تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علماء اس بات پر نازاں ہوتے ہیں کہ خدا کا
دیا ہوا نظام ان
کے پاس ہے جس میں کسی قسم کی کوئی ردوبدل نہیں ہے جو کہ سچا اور پاک ہے وہ مذہبی عقیدوں کو
سمجھنے اور ان پر عمل کے حوالے سے عام انسان کے خیالات کو
اہمیت نہیں دیتے۔علماء سائنسی پیش رفتوں
کی مخالفت کے لئے جانے جاتے ہیں ان کا خیا ل یہ ہے کہ یہ پیش رفتیں مذہب
کے منافی ہیں ان سے
ایمان والے گمراہ ہو جائیں گے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ شاید
وہ ایمان والوں سے محبت اور ان کو غلط
راستوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کرتے ہوں۔سائنس سے اختلاف کے
لئے ان کے پاس مذہبی نوعیت کے
نظریات ہوتے ہیں جو زیادہ
تر تجربات ومشاہدات اور منطقی
شواہد پر مشتمل نہیں ہوتے۔
وہ مذہبی سمجھ کے لئے مذاہب کی سائنسی تاریخ، نفسیات ،بشریات اور
سماجیات جیسے نئے علوم کو خاطر
میں نہیں لاتے۔ اور اگر دوسری طرف
ہم دیکھتے ہیں تو سائنسدان سائنسی علوم
کو ایسے جہان کے طور پر
دیکھتے ہیں جو کافی حد تک تجربے و مشاہدے اور انسانی منطق
کے قابل منضبط شواہد کی بنیاد پر کھڑا
ہے۔ان
کے نزدیک سائنس ارتقائی عمل سے
گزرتا رہتا ہے اور اپنے اندر مختلف
تبدیلیاں لاتا ہے اور مشاہدات
اور تجربات
کی بنیاد پر سامنے آنے والے نئے شواہد کی پیروی کرتا ہے کسی علم کو جانچنا
ہو تو وہ یہی طریقہ
اپناتے ہیں۔جب کہ دوسری طرف مذہبی ذہنیت کے لوگ سائنسی دریافتوں کی ارتقاء کو ایک کمزوری
کے طور پر دیکھتے ہیں، اور وہ تبدیلی پر
پائیداری کو اہمیت دیتےہیں ۔اگر ہم تاریخی اعتبار سے بھی دیکھیں
تو ہمیشہ مذہب اور سائنس میں زیادہ
تر مخالفت ہوتی رہی ہے اور یہ مخالفت ہمیں عدم برداشت کی حد
تک نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کو
ایسے گمراہ انسانوں کے طور جانا جاتا ہے جو مذہبی
عقیدوں کی اطاعت نہ کرنے پر بضد
ہیں۔ اور
یہ اسلئے ہوتا ہے ،کیونکہ وہ
سائنس کو جانچنے کے لئے
مذہبی علوم کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ مذہبی علم سے سائنس کو پرکھنا مشکل ہے اور یہ ہی بات
سائنس کے لئے بھی ہے کہ مذہب کو
جانچنے کے لئے سائنسی علوم ناکافی ہیں ہمیں اپنے خیالات اور
تصورات کو کم از کم اتنا ضرور
بدلنا ہوگا کہ ہمارے اندر تضادات پر جائزہ
لینے کا حوصلہ پیدا ہو۔ جس طرح
تحقیق کے دوران سائنس کی ہر تحقیق میں الگ الگ طریقے اپنائے جاتے ہیں ،اسی طرح مذہب میں بھی
،قانون ، روحانیت، ارکان ، زبان ،جیسی
شاخوں کو سمجھنے کے لئے کئی طریقے
مطلوب ہوتے ہیں۔
چنانچہ مذہبی علماء سائنس کو جب نظریہ ءعلم مذہب کو استعمال
کرتے ہوئے پرکھتے ہیں تب وہی غلطی
کر رہے ہوتے ہیں جو مذہب کو سمجھنے کے لئے سائنسدان سائنسئ
طریقے اپنا کے کرتے ہیں ،یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ نہ سائنسئ
تجربات ومشاہدات سے مذہب کو پرکھا جاسکتا ہے اور نہ مذہبی نظرئے
سے سائنس کو یہ دونوں دو الگ الگ علم ہیں ان علوم کو ایک دوسرے سے کم تر سمجھنے کے بجائے ان کو
انسانی فلاح کے لئے علم میں
موجود منفرد کردار کو تسلیم کرنے ضرورت
ہے۔ اکثر نوجوان یہ سوال
پو چھتے ہیں کہ آخر مذہب نے گزشتہ
برسوں کے دوران دنیا میں انسانی ترقی کے لئے کونسا کردار ادا کیا
ہے وہ یہ
سوال شاید سائنسئ ایجادات سے متاثر ہو کر
کر تے ہیں ،مگر ان کے جواب میں ایک سوال یہ
بنتا ہے کہ کیا ہمیں
مذہب سے تکنیکی انقلاب لانے کی
امید کرنا چاہئے ؟ یہ ایک فطری عمل ہے جو
کام
سائنس کرتی ہے اسے دیکھا جاسکتا
ہے مگر انسان کے اندر مذہب کے ذریعے جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے اسے
نہیں دیکھا جاسکتا۔اگر ہم یہ مانتے
ہیں کہ سائنس کی بدولت آج ہم آسماں میں اُڑتے ہیں تو ہم کو یہ بھی
ماننا ہوگا کہ مولانا روم اور شمش تبریز کے درمیاں این
چیست کی حقیقت بھی تو مذہب کی بدولت ہے
مذہب کا مقصد ٹیکنالوجی کو آسما ن کی بلندیوں تک پہنچانا نہیں بلکہ
روحانی تبدیلوں سے لوگوں کو پابند
اخلاقیات بنانا ہے۔کہنے کا مطلب یہ
کہ ہمیں سائنس کو چھوڑ کر صرف اورصرف مذہب تک محدود
نہیں رہناچاہئے اور نہ ہی صرف
اسلئے مذہب سےدور ہونا چاہئے کہ یہ سائنس کی طرح کام نہیں
کرتا۔کیونکہ ہمیں ان دونوں کی ضرورت
یکساں حیثیت میں ہوتی ہے۔ ہمیں دونوں علوم کےبہترین
پہلوؤں کی ضرورت ہے اس میں علماء حضرات مذہب اور سائنس کے درمیان
ایک مضبوط پل کا کردار
ادا کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے ان
کو سائنس، منطق اور نئے افکار کو قبول کرنا ہوگا اور مذہبی عقائد کے ساتھ سائنسی علوم کا عملی
اظہار کرنا ہوگا۔
0 تبصرے